کورونا وائرس یا بلند شرح سود: مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی وجوہات ہیں کیا؟
کورونا وائرس یا بلند شرح سود: مقامی سطح پر تیار ہونے والی گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی وجوہات ہیں کیا؟
کراچی میں کاروبار کرنے والے ملک جہان خان ہر کچھ عرصے بعد اپنے زیرِ استعمال پرانی کار کو نئی کار سے بدلتے ہیں۔ ان کے مطابق دو، تین سال استعمال ہونے کے بعد مقامی طور پر تیار ہونے والی کار کو بدل لینا ہی بہتر ہے کیونکہ ملک میں سڑکوں کی صورتحال اور دوسری وجوہات کی بنا پر گاڑی میں اتنا کام نکل آتا ہے کہ اسے بدل لینا ہی بہتر ہے۔
تاہم اب جہان خان کے مطابق حالات ایسے نہیں ہیں کہ کار بدلی جا سکے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہیں اور مستقبل کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا ہونے والا ہے۔ ان کے مطابق کار ایک لگژری ہے جو انسان اس وقت خریدتا یا بدلتا ہے جب اس کے پاس روزمرہ کے اخراجات کے بعد رقم بچ جائے۔
اس وقت دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کاروبار کے حالات بہت زیادہ مخدوش ہو چکے ہیں اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال بھی ہے تو ایسی صورت میں کسی لگژری کے بارے میں سوچنا مشکل ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار پر عائد بندشوں نے دیگر صنعتوں کے ساتھ ملک میں گاڑیاں بنانے والی صنعت کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ آٹو سیکٹر بند ہونے کی وجہ سے گذشتہ ماہ اپریل میں نہ تو کوئی نئی گاڑی تیار ہوئی اور نہ ہی کوئی گاڑی فروخت ہو سکی۔
پاکستان میں مقامی طور پر تین کمپنیاں، پاک سوزوکی، انڈس موٹرز اور ہنڈا اٹلس، کاریں تیار کرتی ہیں۔
پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلنے کے بعد جب حکومت نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیا تو اس کے نتیجے میں ان تینوں کمپنیوں کے پلانٹس بھی بند کر دیے گئے۔
مارچ کے مہینے میں شروع ہونے والا لاک ڈاؤن اپریل میں بھی جاری رہا جس کی وجہ سے گاڑیاں بنانے کی صنعت بھی بند رہی۔ ملک میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان آٹو موٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اپریل میں مقامی طور پر کاروں کی تیاری اور فروخت صفر رہی۔
گذشتہ سال اپریل کے مہینے میں 17 ہزار سے زائد کاریں تیار کر کے فروخت کی گئیں تھیں۔
مقامی سطح پر بننے والی گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی وجوہات
پاکستان میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے نئی گاڑیوں کی تیاری کا عمل رُکا ہوا ہے تاہم اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں ملک میں مقامی سطح پر تیار ہونے والی کاروں کی فروخت میں گذشتہ کئی مہینوں سے کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
گذشتہ سال کے شروع کے مہینوں میں ان گاڑیوں کی فروخت 15 سے 20 ہزار کے درمیان تھی جو اس سال جنوری میں 10 ہزار تک گِر گئی اور مارچ میں یہ تعداد پانچ ہزار کی سطح تک آن پہنچی۔
پاما کے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے دس ماہ (جولائی تا اپریل) میں کاروں کی فروخت میں 50 فیصد کمی گذشتہ سال کے انھی مہینوں کے مقابلے میں دیکھنے میں آئی۔ یہ کمی کسی خاص کار کی فروخت میں نہیں آئی بلکہ تینوں کمپنیوں کے کاروں کی فروخت میں منفی رجحان دیکھنے میں آیا۔
گذشتہ مالی سال کے پہلے دس ماہ میں کمپنیوں نے 177000 کاریں فروخت کی تھیں جن کی تعداد رواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں میں 85 ہزار تک محدود رہی۔
کاریں تیار کرنے والی صنعت سے وابستہ افراد کے مطابق ملک میں 13.5 فیصد سے زائد شرح سود نے ان کی صنعت کو بُری طرح متاثر کیا جس کی وجہ سے کاروں کی فروخت گری۔ شرح سود میں اضافے کی وجہ سے کاروں کی طلب میں کمی کی بنیادی وجہ پاکستان میں کیش کے مقابلے میں بینک سے قرضہ لے کر کار خریدنے کا رجحان ہے۔
ڈریسن سکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ یوسف سعید کے مطابق پاکستان میں نئی کار کی خریداری 60 سے 70 فیصد تک بینک کی فنانسنگ اور لیزنگ کے ذریعے کی جاتی ہے۔
جب ملک میں شرح سود میں اضافہ ہوا تو بینک سے قرض لے کر کار خریدنا مہنگا پڑ رہا تھا جس کی وجہ سے کورونا سے پہلے ہی کاروں کی طلب میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی تھی اور پھر لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاریں بنانے والے پلانٹس بند ہوئے جس کی بنا پر اپریل کے مہینے میں ایک بھی نئی کار تیار اور فروخت نہیں ہو سکی۔
تاہم یہ صورتحال پاکستان تک محدود نہیں ہے کیونکہ خطے کے دوسرے ملکوں میں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن نے وہاں کی آٹو انڈسٹری کو بُری طرح متاثر کیا۔
تجزیہ کار یوسف سعید کے مطابق انڈیا میں بھی کاروں کی فروخت اپریل کے مہینے میں مکمل طور پر بند رہی جس کی وجہ کورونا وائرس کے باعث لگنے والا لاک ڈاؤن تھا۔ اسی طرح سری لنکا میں بھی کاروں کی فروخت میں 80 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
کار سازی سے منسلک دیگر صنعتیں بھی مشکلات کا شکار
کاروں کی فروخت نہ ہونے کی وجہ سے جہاں کار بنانے والی کمپنیوں کو مالی خسارے کا سامنا ہے تو اس کے ساتھ اس صنعت سے جڑی وہ سینکڑوں کمپنیاں بھی اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہیں جو کار کی تیاری کے لیے سپیئر پارٹس اور دوسری چیزیں فراہم کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کو ’ونڈرز‘ کہا جاتا ہے جو سمال انڈسٹریز کا درجہ رکھتی ہیں۔
کاروں کی تیاری رُک جانے سے ان ونڈرز کا کام بھی ٹھپ ہو چکا ہے اور اب ایسی کمپنیوں کے لیے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینا مشکل ہو چکا ہے۔ ان ونڈرز کی کتنی تعداد ہے؟ اس کے بارے میں پاکستان آٹو موٹو پارٹس اینڈ اسیسریز ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ مشہود علی خان کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد 2500 ہے۔
لیکن اگر صرف ملک میں کار بنانے والے پلانٹس کو لیا جائے تو انھیں کار کی تیاری کے لیے پُرزے اور دوسری چیزیں فراہم کرنے والے ونڈرز کی تعداد 450 کے لگ بھگ ہے جنھیں اوریجنل ایکیوپمنٹ مینوفیکچرز (او ای ایم) کہا جاتا ہے۔
مشہود علی کے مطابق اس انڈسٹری سے تقریباً براہ راست پانچ لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کا معاش اس وقت خطرے میں پڑ چکا ہے۔
گاڑیوں کی فروخت میں کمی مگر قیمتوں میں اضافہ
پاکستان میں ایک طرف کاروں کی فروخت میں کمی کا رجحان جاری ہے تو دوسری جانب کار تیار کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے ان کی قیمتوں میں وقتاً فوقتاً اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک ایسے وقت جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروں کی فروخت صفر رہی ہے ملک میں کار بنانے والی دو کمپنیوں انڈس موٹرز اور ہنڈا اٹلس کار نے اپریل اور مئی کے مہینوں میں کار کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
کار بنانی والی کمپنیوں نے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کو اس اضافے کی وجہ قرار دیا ہے۔
پاکستان میں تیار ہونے والی کاروں میں استعمال ہونے والے خام مال کا 50 سے 70 فیصد بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتا ہے جس کی لاگت سے ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے جس میں کار کی باڈی بنانے میں استعمال ہونے والی شیٹ سے لے کر پلاسٹک اور دوسری اسیسریز شامل ہیں۔ ملک میں مہنگی کاروں کے باوجود ان کے معیار پر بہت سارے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں آل پاکستان موٹرز ڈیلر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کہتے ہیں کہ مقامی طور پر کار تیار کرنے والی کمپنیاں ناجائز منافع خوری میں ملوث ہیں اور ان کمپنیوں کی مہنگی کاریں روڈ سیفٹی کے سٹینڈرڈز پر پورا نہیں اُترتیں۔ شہزاد کے مطابق مقامی طور پر تیار ہونے والی مہنگی کاروں کا متبادل درآمد شدہ کاریں ہیں جو معیار اور روڈ سیفٹی سٹینڈرڈ میں مقامی کاروں سے بہت بہتر ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے گذشتہ برسوں میں ریگولیٹری ڈیوٹی اور ٹیکس بڑھانے کی وجہ سے مقامی صارفین کو ایک بہتر چوائس سے محروم کر دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق سات ہزار سے زائد تعداد میں سالانہ آنے والی درآمد شدہ کاروں کی تعداد ایک ہزار سے کم ہو گئی ہے۔
پاکستان اور انڈیا میں مقامی طور پر تیار ہونے والی کارروں کی قیمتوں میں فرق کے بارے میں یوسف سعید کہتے ہیں کہ اس میں بنیادی فرق خام مال کی قیمت ہے۔
انڈیا میں مقامی طور پر تیار ہونے والی کار کا خام مال تقریباً مقامی طور پر دستیاب ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں 50 فیصد سے زیادہ خام مال بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے۔
رواں ماہ بھی بدترین ثابت ہو گا
کراچی میں کار ڈیلروں کے مطابق گذشتہ برسوں کے ان دنوں میں نئی کار کی خریداری کا رجحان اس قدر بڑھ جاتا تھا کہ صارفین اضافی رقم خرچ کر کے بھی نئی گاڑی خرید لیتے تھے لیکن اس مرتبہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ طلب مکمل طور پر ختم ہے۔
کار ڈیلر اقبال شاہ کے مطابق سندھ میں ابھی تک تمام کار شو رومز بند ہیں۔ وائس اپ یا آن لائن بکنگ کی اجازت ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ کاریں تیار کرنے والے پلانٹس بند پڑے ہیں۔
انھوں نے کہا پنجاب میں حکومت نے یہ پلانٹس کھولنے کا اعلان کیا ہے لیکن سندھ میں ابھی تک ایسا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔ کار ڈیلر کے مطابق اپریل کی طرح مئی کا مہینہ بھی کاروں کی خرید و فروخت کے لحاظ سے بدترین ثابت ہو گا۔
Comments
Post a Comment