جارج فلائیڈ کی ہلاکت: امریکہ کے کئی شہروں میں کرفیو کے باوجود مظاہرے، صدر ٹرمپ کی فوج بلانے کی دھمکی

جارج فلائیڈ کی ہلاکت: امریکہ کے کئی شہروں میں کرفیو کے باوجود مظاہرے، صدر ٹرمپ کی فوج بلانے کی دھمکی
جارج فلائیڈ کی ہلاکت: امریکہ کے کئی شہروں میں کرفیو کے باوجود مظاہرے، صدر ٹرمپ کی فوج بلانے کی دھمکی
امریکہ میں پولیس کی تحویل میں ہلاک ہونے والے سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی موت، جس کے بعد امریکہ بھر میں مظاہروں کس سلسلہ شروع ہو گیا ہے، کو سرکاری پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ’قتل‘ قرار دے دیا گیا ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین کو دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے پُرتشدد احتجاج ختم نہ کیا تو وہ فوج طلب کر لیں گے۔

ہینیپین کاؤنٹی میڈیکل اگزیمینر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کا سانس رکنے کی وجہ سے انھیں دل کا دورہ پڑا تھا۔

جارج کی گردن پر گھٹنا ٹیکنے والے پولیس افسر ڈریک شیوان پر غیر ارادی قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے اور وہ اگلے ہفتے عدالت میں پیش ہوں گے۔ ان کے ساتھ تین دیگر پولیس افسران کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔

لیکن پولیس تحویل میں جارج کی ہلاکت کے رد عمل میں شروع ہونے والے مظاہروں کا آج ساتواں دن ہے اور امریکہ کے مختلف شہروں میں ایسے پر تشدد واقعات رونما ہوئے ہیں جس کی مثال کئی دہائیوں میں نہیں ملتی۔


دوسری جانب امرکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتی ہوئی بدامنی کو روکنے کے لیے فوج بلانے کی دھمکی دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر شہر اور ریاستیں مظاہروں پر قابو پانے اور اپنے شہریوں کی حفاظت‘ کرنے میں ناکام رہے تو وہ فوج کو تعینات کردیں گے اور 'ان کے مسئلے کو جلد ہی حل کر دیں گے۔

جب صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں یہ باتیں کہیں اس وقت پولیس قریبی پارک سے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے مظاہرین کو منتشر کر رہی تھی۔

اس کے بعد صدر نے پارک کو عبور کیا اور توڑ پھوڑ کا شکار ہونے والے ایک چرچ کے پاس کھڑے ہو کر تصاویر بنوائیں۔ ان کے اس عمل پر لوگوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی جنھوں نے الزام لگایا کہ صدرنے محض تصویر کھینچوانے کی خاطر پرامن مظاہرین کو جارحانہ طور پر نشانہ بنایا۔
ٹرمپ نے کیا کہا؟

صدر ٹرمپ نے پیر کی شام وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن سے ایک مختصر خطاب کیا جس میں قریب ہی احتجاج کو منتشر کیے جانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ جارج فلوئیڈ کی وحشیانہ ہلاکت سے تمام امریکی افسردہ ہوئے اور بغاوت کی‘ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی یادوں کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بے حرمتی نہیں ہونے دیی جائے گی۔

انھوں نے اتوار کے روز دارالحکومت میں لوٹ مار اور تشدد کے مناظر کو ’شرمناک‘ قرار دیا لیکن اس سے قبل شہر کے دفاع کو مضبوط بنانے کا عہد بھی کیا۔

انھوں نے کہا: میں فسادات، لوٹ مار توڑ پھوڑ، حملوں اور املاک کی بے جا تباہی کو روکنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں بھاری مسلح فوجی، فوجی جوان اور قانون نافذ کرنے والے افسران بھیج رہا ہوں۔

اس کے بعد صدر ٹرمپ نے قومی احتجاج پر بات کی اور اس کا الزام پیشہ ورانہ شر پسندوں اور فاشسٹ مخالف گروہ اینٹیفا پر لگایا۔ اور اتوار کے روز انھوں نے اینٹیفا کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔

انھوں نے شہروں اور ریاستوں سے نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے لیے کہا اور یہ بھی کہا کہ ریزرو فوج کو اندورنی ہنگامی صورتحال میں مداخلت کرنے کے لیے 'اتنی تعداد میں تعینات کیا جائے تاکہ ہم سڑکوں کی صورتحال پر قابو پا سکیں۔‘ اب تک کشیدگی سے نمٹنے کے لیے 16 ہزار فوجی تعینات کیے جا چکے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے مزید کہا: اگر کوئی شہر یا ریاست ضروری اقدامات اٹھانے سے انکار کرتی ہے۔۔۔ تو میں امریکہ کی فوج تعینات کروں گا اور ان کے لیے جلد ہی مسئلہ حل کر دوں گا۔

انھوں نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ اس دہشت گردی کے منتظمین اس بات کا نوٹس لیں کہ انھیں سخت مجرمانہ سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سینیئر ڈیموکریٹس کی جانب سے ان کے بیان کو فوری تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدواروں میں سے ایک جو بائیڈن نے کہا کہ 'مسٹر ٹرمپ امریکی فوج کو امریکی عوام کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔

اپنے خطاب کے بعد مسٹر ٹرمپ اتوار کے روز قریب کے پارک سے گزرتے ہوئے ایک تاریخی چرچ کے پاس گئے جسے مظاہرے کے دوران معمولی نقصان ہوا تھا اور وہاں انھوں نے ہاتھ میں بائبل (انجیل) لے کر تصویروں کے لیے پوز کیا۔

ایوان کی سپیکر نینسی پیلوسی اور سینیٹ میں اقلیتی رہنما چک شمر نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ پرامن مظاہرین کو آنسو گیس کا نشانہ بنایا گیا تاکہ صدر کسی چرچ کے باہر فوٹو کھنچوا سکیں۔

شومر نے ٹوئٹر پر لکھا: ’یہ صدر کس حد تک جاسکتا ہے؟ ان کے اقدامات سے اس کی اصلیت ظاہر ہوتی ہے۔

امریکہ کے بڑے شہروں میں کیا صورتحال ہے؟

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکہ کے کئی شہروں میں احتجاج اور بدامنی کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے لیکن لوگ بڑے پیمانے پر پابندیوں کو نظر انداز کرکے مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔

نیو یارک سٹی میں منگل کے روز مقامی وقت کے مطابق صبح 05:00 بجے تک کرفیو نافذ ہے جبکہ واشنگٹن ڈی سی نے اپنے کرفیو میں مزید دو راتوں تک توسیع کردی ہے۔

آئیے آپ کو بتاتے ہیں امریکہ کے بڑے شہروں میں مظاہروں کی کیا صورتحال ہے۔

نیویارک

یو یارک شہر کے میئر بل ڈی بلیسو کا کہنا ہے کہ مظاہرے ’کافی حد تک زیادہ پر امن‘ رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے متنبہ کیا کہ ہم لوگوں کو چوری کرنے یا نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دکانوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں اور سامنے کا سارا حصہ تباہ ہو گیا ہے۔
دوسری جانب جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد نیویارک میں واقع ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی روشنیاں بھجا دی گئیں.

واشنگٹن

واشنگٹن کی میئر میوریل باؤسر نے کرفیو شروع ہونے سے ’پورے 25 منٹ‘ قبل پرامن مظاہرین پر اسلحہ استعمال کرنے پر وفاقی پولیس کی مذمت کی ہے۔

ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے ایسے اقدامات سے ’ڈی سی پولیس ڈیپارٹمنٹ کے افسران کا کام مشکل ہو جائے گا۔

اس سے قبل بوسر نے رات 7 سے صبح 4 بجے تک کرفیو کا آرڈر دیا تھا۔ انھوں نے ڈی سی کے رہائشیوں کو کہا کہ اب گھر جائیں۔

واشنگٹن میں پرتشدد مظاہروں کے بعد کرفیو نافذ کردیا گیا تھا۔

مینی ایپولس

مینی اپیولس میں شہریوں نے کرفیو کی سخت مذمت کی ہے۔

نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر جان ایلگون کے مطابق جارج فلائیڈ کو جس جگہ ہلاک کیا گیا تھا، شہریوں نے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس مقام پر اکھٹے ہو کر ان کی یاد میں شمعیں روشن کئیں۔

لاس انجیلس

لاس انجیلیس کا پرامن مارچ لوٹ مار کی نظر ہو گیا۔ مظاہرین نے مارچ کے قریبی راستوں میں توڑ پھوڑ کی اور دکانوں کو نشانہ بنایا۔

وان نیوس میں ایک اور پرامن مظاہرہ بھی لوٹ مار اور گرفتاریوں پر ختم ہوا۔تاہم شام 6 بجے کے کرفیو کے باوجود احتجاج جاری رہا اور شہر کے کچھ حصوں میں کاروبار جاری رہا۔

لاس انجیلیس میں ہفتے کے آخر میں تشدد اور چوری کی وارداتیں ہوئیں اور کئی گروہوں نے پولیس کی گاڑیوں اور دکانوں کو توڑا۔
لاس اینجلس میں کرفیو شروع ہونے کے بعد، شہر کے پولیس سربراہ نے کہا کہ تباہی اور خلفشار پیدا کرنے والے افراد جارج فلائیڈ کی یاد کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔

Comments